بدھ، 22 اکتوبر، 2014

دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو

دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو

شفق دھنک مہتاب گھٹائیں تارے نغمے بجلی پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو

چاہت کے بدلے میں ہم تو بیچ د یں اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو

سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر بیتی ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو

جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو

نادانی اور مجبوری میں یارو کچھ تو فرق کرو
اک بےبس انسان کرے کیا ٹوٹ کے دل آجائے تو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔