پیر، 15 دسمبر، 2014

کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا

کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا
یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا

یہ فوج  نکلتی تھی کہاں خانۂِ  دِل سے
یادوں کو نہایت ہی قرینے سے نکالا

میں خون بہا کر بھی ہوا   باغ میں رُسوا
اُس گُل نے مگر کام پسینے سے نکالا

ٹھہرے ہیں زر و سیم کے حقدار تماشائی
اور مارِ سیہ ہم نے دفینے سے نکالا

یہ سوچ کے ساحل پہ سفر ختم نہ ہو جائے
باہر نہ کبھی پاؤں سفینے سے نکالا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔