منگل، 9 دسمبر، 2014

شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے

شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے

دل خوں شدۂ کشمکشِ حسرتِ دیدار
آئینہ بہ دستِ بتِ بدمستِ حنا ہے

شعلے سے نہ ہوتی، ہوسِ شعلہ نے جو کی
جی کس قدر افسردگئ دل پہ جلا ہے

تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بصد ذوق
آئینہ بہ اند ازِ گل آغوش کشا ہے

قمری کفِ خا کستر و بلبل قفسِ رنگ
اے نالہ! نشانِ جگرِ سو ختہ کیا ہے؟

خو نے تری افسردہ کیا وحشتِ دل کو
معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بلا ہے

مجبوری و دعوائے گرفتارئ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے

معلوم ہوا حالِ شہیدانِ گزشتہ
تیغِ ستم آئینۂ تصویر نما ہے

اے پرتوِ خورشیدِ جہاں تاب اِدھر بھی
سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ِان کردہ گناہوں کی سزا ہے

بیگانگئِ خلق سے بیدل نہ ہو غالب
کوئی نہیں تیرا، تو مری جان، خدا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔