منگل، 25 اکتوبر، 2016

میں نے کس شوق سے اِک عمر غزل خوانی کی

میں نے کس شوق سے اِک عمر غزل خوانی کی
کتنی گہری ہیں لکیریں میری پیشانی کی

وقت ہے میرے تعاقب میں چھپا لے مجھ کو
جوئے کم آب!قسم تجھ کو ترے پانی کی

یُوں گزرتی ہے رگ و پے سے تری یاد کی لہر
جیسے زنجیر چھنک اُٹھتی ہے زندانی کی

اجنبی سے نظر آئے ترے چہرے کے نقوش
جب ترے حُسن پہ میں نے نظرثانی کی

مجھ سے کہتا ہے کوئی،آپ پریشاں نہ ہوں
مری زلفوں کو تو عادت ہے پریشانی کی

زندگی کیا ہے؟طلسمات کی وادی کا سفر
پھر بھی فرصت نہیں ملتی مجھے حیرانی کی

وہ بھی تھے ذکر بھی تھا رنگ غزل کا شبنؔم
پھر تو میں نے سر ِ محفل وہ گل افشانی کی

شبنؔم رومانی

1 تبصرہ:

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔