جمعہ، 20 جنوری، 2017

جو دِل نے کہہ دی ہے وہ بات ان کہی بھی نہ تھی

جو دِل نے کہہ دی ہے وہ بات ان کہی بھی نہ تھی
یہ موج تو تہہِ دریا کبھی رہی بھی نہ تھی

جھکیں جو سوچتی پلکیں تو میری دنیا کو
ڈبو گئی وہ ندی جو ابھی بہی بھی نہ تھی

سنی جو بات کوئی ان سنی تو یاد آیا
وہ دِل کہ جس کی کہانی کبھی کہی بھی نہ تھی

نگر نگر وہی آنکھیں، پس زماں، پسِ در
مری خطا کی سزا عمرِ گمرہی بھی نہ تھی

کسی کی روح تک اک فاصلہ خیال کا تھا
کبھی کبھی تو یہ دوری رہی سہی بھی نہ تھی

نشے کی رو میں یہ جھلکا ہے کیوں نشے کا شعور
اس آگ میں تو کوئی آبِ آگہی بھی نہ تھی

غموں کی راکھ سے امجد وہ غم طلوع ہوئے
جنھیں نصیب اک آہِ سحرگہی بھی نہ تھی

منگل، 17 جنوری، 2017

ذرا سی بات پہ دل کا گداز ہو جانا

ہوا کا چلنا‘ دریچوں کا باز ہو جانا
ذرا سی بات پہ دل کا گداز ہو جانا

مرے کنار سے اٹھنا مرے ستارے کا
اور اس کے بعد شبوں کا دراز ہو جانا

وہ میرے شیشے پہ آنا تمام گردِ ملال
پھر ایک شخص کا آئینہ ساز ہو جانا

وہ جاگنا مری خاکِ بدن میں نغموں کا
کسی کی انگلیوں کانے نواز ہو جانا

خیال میں ترا کُھلنا مثالِ بند قبا
مگر گرفت میں آنا تو راز ہو جانا

میں اس زمیں پہ تجھے چاہنے کو زندہ ہوں
مجھے قبول نہیں بے جواز ہو جانا​
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔