پیر، 10 دسمبر، 2012

ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے

ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے
مطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے

چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی
اے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے

شاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال
اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے

ہے حسن کا فسوں بھی علاج فسردگی
رُخ سے نقاب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے

میں نے کبھی یہ ضد تو نہیں کی پر آج شب
اے مہ جبیں نہ جا کہ طبیعت اداس ہے

توبہ تو کر چکا ہوں مگر پھر بھی اے عدم
تھوڑا سا زہر لا کہ طبیعت اداس ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔