ہفتہ، 8 دسمبر، 2012

پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے

عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا دارا جانے ہے

چارہ گری و بیمارئ دل کی رسمِ شہرِ حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارا جانے ہے

مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارا جانے ہے

عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ اٹھتا ہے دیکھے اسے
یار کے آ جانے کو یکا یک عمر دوبارا جانے ہے

تشنہ خوں ہے اپنا کتنا میر بھی ناداں تلخی کش
دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔