ہفتہ، 8 دسمبر، 2012

ہوا تھمی تھی ضرور لیکن

ہوا تھمی تھی ضرور لیکن
وہ شام بھی جیسے سسک رہی تھی
کہ زرد پتوں نے آندھیوں سے
عجیب قصہ سن لیا تھا
کہ جس کو سن کر تمام پتے
سسک رھے تھے، بلک رھے تھے
جانے کس سانحے کے غم میں
شجر جڑوں سے اجڑ چکے تھے
بہت تلاشا تھا ہم نے تم کو
ہر اک راستہ
ہر اک وادی
ہر اک پربت
ہر اک گھاٹی
مگر کہیں سے تمہاری خبر نہ آئی
تو یہ کہ کر ہم نے دل کو ٹالا
ہوا تھمے گی تو دیکھ لیں گے
ہم اسکے کے راستوں کو ڈھونڈ لیں گے
مگر ہماری یہ خوش خیالی
جو ہم کو برباد کر گئی تھی
ہوا تھمی تھی ضرور لیکن
بڑی ہی مدت گزر چکی تھی
ہمارے بالوں کے جنگلوںمیں
سفید چاندی اتر چکی تھی
فلک پر تارے نہیں رھے تھے
گلاب پیارے نہیں رھے تھے
وہ جن سے بستی تھی دل کی بستی
وہ لوگ سارے نہیں رھے تھے
مگر یہ المیہ سب سے بلا تھا
کہ ہم تمہارے نہیں رھے تھے
کہ تم ہمارے نہیں رھے تھے
ہوا تھمی تھی ضرور لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔