ہفتہ، 8 دسمبر، 2012

کبھی جو مدتوں کے بعد اسکا سامنا ہوگا

کبھی جو مدتوں کے بعد اسکا سامنا ہوگا
سوائے پاس آداب تکلف کے اور کیا ہوگا

یہاں وہ کون ہے، جو انتخاب غم پر قادر ہے
جو مل جائے وہی دوستو کا مدّعا ہوگا

صلیب وقت پر میں نے پکارا تھا محبّت کو
میری آواز جس نے بھی سنی ہوگی ہنسا ہوگا

ہمارے شوق کے آسودہ و خوشحال ہونے تک
تمہارے عارض و گیسو کا سودا ہو چکا ہوگا

ہنسی آتی ہے مجھکو مصلحت کے ان تقاضوں پر
کے اب اک اجنبی بن کر اسے پہچاننا ہوگا

دلیلوں سے دوا کا کام لینا سخت مشکل ہے
مگر اس غم کی خاطر یہ ہنر بھی سیکھنا ہوگا

ہے نصف شب وہ دیوانہ ابھی تک نہیں آیا
کسی سے چاندنی راتوں کا قصّہ چھڑ گیا ہوگا

صبا! شکوہ ہے مجھکو ان دریچوں سے، دریچوں سے؟
دریچوں میں تو دیمک کے سوا اب اور کیا ہوگا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔