اتوار، 30 دسمبر، 2012

آپ اپنا غبار تھے ہم تو

آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے یادگار تھے ہم تو

پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ
تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو

وقت کی دھوپ میں تمہارے لیے
شجرِ سایہ دار تھے ہم تو

اُڑتے جاتے ہیں دھُول کے مانند
آندھیوں پر سوار تھے ہم تو

ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو

شرم ہے اپنی بار باری کی
بے سبب بار بار تھے ہم تو

کیوں ہمیں کر دیا گیا مجبور
خود ہی بے اختیار تھے ہم تو

تم نے کیسے بُلا دیا ہم کو
تم سے ہی مستعار تھے ہم تو

خوش نہ آیا ہمیں جیے جانا
لمحے لمحے پہ بار تھے ہم تو

سہہ بھی لیتے ہمارے طعنوں کو
جانِ من جاں نثار تھے ہم تو

خود کو دورانِ حال میں اپنے
بے طرح ناگوار تھے ہم تو

تم نے ہم کو بھی کر دیا برباد
نادرِ روزگار تھے ہم تو

ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروں کے یار تھے ہم تو

2 تبصرے:

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔