بدھ، 26 دسمبر، 2012

صیّاد تو امکان سفر کاٹ رہا ہے

صیّاد تو امکان سفر کاٹ رہا ہے
اندر سے بھی کوئی مرے پر کاٹ رہا ہے

اے چادر منصب، ترا شوقِ گلِ تازہ
شاعر کا ترے دستِ ہُنر کاٹ رہا ہے

جس دن سے شمار اپنا پناہگیروں میں ٹہرا
اُس دن سے تو لگتا ہے کہ گھر کاٹ رہا ہے

کس شخص کا دل میں نے دُکھایا تھا، کہ اب تک
وہ میری دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے

قاتل کو کوئی قتل کے آداب سکھائے
دستار کے ہوتے ہوئے سر کاٹ رہا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔