بدھ، 26 دسمبر، 2012

کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا


کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتامیں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشہ مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہر گز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔