بیٹے کو سزا دے کے عجب حال ہوا ہے
دل پہروں مرا کرب کے دوزخ میں جلا ہے
عورت کو سمجھتا تھا جو مردوں کا کھلونا
اس شخص کو داماد بھی ویسا ہی ملا ہے
ہر اہل ہوس جیب میں بھر لایا ہے پتھر
ہمسا ئے کی بیری پہ ابھی بور پڑا ہے
اب تک میرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط
اب تک میرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے
اے رات !مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے
شاید میں غلط دور میں اترا ہوں زمیں پر
ہر شخص تحیر سے مجھے دیکھ رہا ہے
اطراف میں باریش بزرگوں کا ہے پہرا
اور بیچ میں سہما ہوا تنویر کھڑا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں