بدھ، 26 دسمبر، 2012

بیٹے کو سزا دے کے عجب حال ہوا ہے

بیٹے کو سزا دے کے عجب حال ہوا ہے
دل پہروں مرا کرب کے دوزخ میں جلا ہے

عورت کو سمجھتا تھا جو مردوں کا کھلونا
اس شخص کو داماد بھی ویسا ہی ملا ہے

ہر اہل ہوس جیب میں بھر لایا ہے پتھر
ہمسا ئے کی بیری پہ ابھی بور پڑا ہے

اب تک میرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط
اب تک میرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے

اے رات !مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے

شاید میں غلط دور میں اترا ہوں زمیں پر
ہر شخص تحیر سے مجھے دیکھ رہا ہے

اطراف میں باریش بزرگوں کا ہے پہرا
اور بیچ میں سہما ہوا تنویر کھڑا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔