اےرب کائنات بڑی دیر ہو گئی
اک چشم التفات بڑی دیر ہو گئی
محروم ایک نگاہ کرم نقش پر الم
ہاں مالک کائنات بڑی دیر ہو گئی
عرش بریں سے جب تھادعاؤں کا رابطہ
آئی تھی لب پہ بات بڑی دیر ہو گئی
ہر شے میں تیرا حسن قدامت لیے ہوئے
لیکن وہ شرف ذات بڑی دیر ہو گئی
اک گوشہء نقاب اٹھایا تھا طور پر
جانے تجلیات بڑی دیر ہو گئی
دن بھی ہے ظلمتوں کی لپیٹے ہوئے ردا
ہے آس پاس رات بڑی دیر ہو گئی
حاصل نہیں ہے ایک بھی لمحہ حیات کا
ہے مضطرب حیات بڑی دیر ہو گئی
یہ اور بات ہے کہ تو ہے مائل بہ کرم
ہے ساعت مشکلات بڑی دیر ہو گئی
رہتا تھا ساتھ ساتھ ہجوم التجاؤں کا
تازہ ہیں باقیات بڑی دیر ہو گئی
اے رب کائنات بڑی دیر ہو گئی
اے رب کائنات بڑی دیر ہو گئی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں