ہفتہ، 8 دسمبر، 2012

مثالِ دستِ زلیخا تپاک چاہتا ہے

مثالِ دستِ زلیخا تپاک چاہتا ہے
یہ دل بھی دامنِ یوسف ہے چاک چاہتا ہے

دعائیں دو مرے قاتل کو تم کہ شہر کا شہر
اُسی کے ہاتھ سے ہونا ہلاک چاہتا ہے

فسانہ گو بھی کرے کیا کہ ہر کوئی سرِ بزم
مآلِ قصۂ دل دردناک چاہتا ہے

اِدھر اُدھر سے کئی آ رہی ہیں آوازیں
اور اُس کا دھیان بہت انہماک چاہتا ہے

ذرا سی گردِ ہوس دل پہ لازمی ہے فرازؔ
وہ عشق کیا ہے جو دامن کو پاک چاہتا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔