ہفتہ، 8 دسمبر، 2012

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لو مجھ کو

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لو مجھ کو
میں ہوں تیرا نصیب اپنا بنا لو مجھ کو

مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معانی
یہ تیری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو

میں سمندر بھی ہوں، موتی بھی ہوں، غوطہ زن بھی
کوئی بھی نام میرا لے کر بلا لے مجھ کو

تو نے دیکھا نہیں آئینے سے آگے کچھ بھی
خود پرستی میں کہیں تو نہ گنوا لے مجھ کو

کل کی بات ہے میں اب سا رہوں یا نہ رہوں
جتنا جی چاہے تیرا آج ستا لے مجھ کو

خود کو کہیں بانٹ نہ ڈالوں دامن دامن
کر دیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو

میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن
میں ہوں اگر پھول تو جوڑے میں سجا لے مجھ کو

میں کھلے در کے کسی گھر کا ہوں سامان پیارے
تو دبے پاؤں کبھی آ کر چرا لے مجھ کو

ترک الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم
تو کبھی یاد تو کر بھلانے والے مجھ کو

بادہ پھر بادہ ہے میں زہر بھی پی جاؤں قتیل
شرط یہ ہے کوئی باہوں میں سنمبھالے مجھ کو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔