اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لو مجھ کو
میں ہوں تیرا نصیب اپنا بنا لو مجھ کو
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معانی
یہ تیری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
میں سمندر بھی ہوں، موتی بھی ہوں، غوطہ زن بھی
کوئی بھی نام میرا لے کر بلا لے مجھ کو
تو نے دیکھا نہیں آئینے سے آگے کچھ بھی
خود پرستی میں کہیں تو نہ گنوا لے مجھ کو
کل کی بات ہے میں اب سا رہوں یا نہ رہوں
جتنا جی چاہے تیرا آج ستا لے مجھ کو
خود کو کہیں بانٹ نہ ڈالوں دامن دامن
کر دیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو
میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن
میں ہوں اگر پھول تو جوڑے میں سجا لے مجھ کو
میں کھلے در کے کسی گھر کا ہوں سامان پیارے
تو دبے پاؤں کبھی آ کر چرا لے مجھ کو
ترک الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم
تو کبھی یاد تو کر بھلانے والے مجھ کو
بادہ پھر بادہ ہے میں زہر بھی پی جاؤں قتیل
شرط یہ ہے کوئی باہوں میں سنمبھالے مجھ کو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں