منگل، 4 دسمبر، 2012

کتاب سادہ رہے گی کب تک

کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا

وہ دن گئے جب کہ ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے
اٹھی جو اب ہم پہ اینٹ کوئی تو اس کا پتھر جواب ہو گا

سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا محال ہو گا

سکوتِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا

نہیں کہ یہ صرف شاعری ہے، غزل میں تاریخِ بے حسی ہے
جو آج شعروں میں کہہ دیا ہے، وہ کل شریکِ نصاب ہو گا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔