ہفتہ، 8 دسمبر، 2012

مالا والا، بِندی وِندی، جُھومر وُومر کیا

مالا والا، بِندی وِندی، جُھومر وُومر کیا
زیور تیرا چہرہ تجھ کو زیور ویور کیا

کام زُباں سے ہی لیتے ہیں سارے مہذب لوگ
طَنز کا اک نشتر کافی ہے پتھر وتھر کیا

اول تو ہم پیتے نیٔں ہیں گر پینا ٹھہرے
تیری آنکھوں سے پی لینگے ساغر واغر کیا

جیون اک چڑھتا دریا ہے ڈوب کے کر لے پار
اس دریا میں کشتی و شتی لنگر وَنگر کیا

مال وال کس شمار میں ہے جان وان کیا ش
ۓ
سر میں سودا سچ کا سما جا
ۓ تو سَر وَر کیا

تُجھ کو دیکھا جی بھر کے اور آنکھیں ٹھنڈی کر لیں
گُل وُل کیا، گُلشن کیا، اور مَنظر وَ نظر کیا

زیب کہو اللہ کرے فِردوسِ بریں میں مکاں
شعر ویر یہ غزل وزل کیا مُضطر وَضطر کیا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔