بدھ، 26 دسمبر، 2012

خدا

خدا - ۱

بُرا لگا تو ہوگا اے خُدا تجھے 
دُعا میں جب 
جمائی لے رہا تھا مَیں
دُعا کے اِس عمل سے تھک گیا ہوں میں 
میں جب سے دیکھ سُن رہا ہوں 
تب سے یاد ہے مجھے
خُدا جلا بجھا رہا ہے رات دن 
خُدا کے ہاتھ میں ہے سب بُرا بھلا 
دُعا کرو
عجیب ساعمل ہے یہ 
یہ ایک فرضی گفتگو
اور ایک طرفہ…….. ایک ایسے شخص سے 
خیا ل جس کی شکل ہے 
خیال ہی ثبوت ہے

====================

خدا۔٢

مَیں دیوار کی اِس جانب ہوں
اِس جانب تو دُھوپ بھی ہے، ہریالی بھی 
اوس بھی گرتی ہے پتوں پر
آجائے تو، آلسی کہرہ 
شاخ پہ بیٹھا، گھنٹوں اونگھتا رہتا ہے 
بارش لمبی لمبی تاروں پر نٹنی کی طرح تھرکتی آنکھ سے گم ہو جاتی ہے 
جو موسم آتا ہے، سارے رَس دیتا ہے 
لیکن اِس کچی دیوار کی دوسری جانب
کیوں ایسا سنّاٹا ہے 
کون ہے جو آواز نہیں کرتا لیکن 
دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا رہتا ہے

====================

خدا۔٣

پچھلی بار ملا تھا جب میں
ایک بھیانک جنگ میں کچھ مصروف تھے تم
نئے نئے ہتھیاروں کی رونق سے کافی خوش لگتے تھے 
اس سے پہلے انتولہ میں 
بُھوک سے مرتے بچوں کی لاشیں دفناتے دیکھا تھا 
اور اِک بار …….. ایک اور ملک میں زلزلہ دیکھا
کچھ شہروں کے شہر گرا کے دوسری جانب لوٹ رہے تھے 
تم کو فلک سے آتے بھی دیکھا تھا میں نے 
آس پاس کے سیّاروں پر دُھول اُڑاتے 
کود پھلانگ کے دوسری دنیاؤں کی گردش
توڑنا کے " گیلکسیز" کے محور تم 
جب بھی زمیں پر آتے ہو
پھونچال چلاتے اور سمندر کھولاتے ہو
بڑے اِیریٹک سے لگتے ہو
کائنات میں کیسے لوگوں کی صحبت میں رہتے ہو تم

====================

خدا۔٤

پورے کا پورا آکاش گھما کر بازی دیکھی میں نے 

کالے گھر میں سُورج رکھ کے 
تم نے شاید سوچا تھا میرے سب مُہرے پٹ جائیں گے 
مَیں نے ایک چراغ جلا کر
اپنا رستہ کھول لیا 
تم نے ایک سمندر ہاتھ میں لے کر مجھ پر انڈھیل دیا 
مَیں نے نوح کی کشتی اُس کے اوپر رکھ دی 

کال چلا تم نے ، اور میری جانب دیکھا
میں نے کال کو توڑ کے لمحہ لمحہ جینا سیکھ لیا 
میر ی خود کو تم نے چند چمتکاروں سے مارنا چاہا
میرے اِک پیادے نے تیرا چاند کا مُہرہ مار لیا
موت کی شہہ دے کر تم نے سمجھا تھا اب تو مات ہوئی
 مَیں نے جسم کا خول اُتار کے سونپ دیا …….. اور رُوح بچالی

پورے کا پورا آکاش گھما کر اب تم دیکھو بازی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔