ہفتہ، 8 دسمبر، 2012

دونوں

دیر تک بیٹھے ہوئے دونوں نے بارش دیکھی
وہ دکھاتی تھی مجھے بجلی کے تاروں پہ لٹکتی ہوئی بوندیں
جو تعاقب میں تھیں اِک دوسرے کے
اور اِک دوسرے کو چھوتے ہی تاروں سے ٹپک جاتی تھیں
مجھ کو یہ فکر کہ بجلی کا کرنٹ
چھو گیا ننگی کسی تار سے تو آگ کے لگ جانے کا باعث ہو گا
اس نے کاغذ کی کئی کشتیاں پانی پر اُتاریں
اور یہ کہہ کے بہادیں کہ سمندر میں ملیں گے
مجھ کو یہ فکر کہ اس بار بھی سیلاب کا پانی
کود کے اُترے گا کہسار سے جب
توڑ کے لے جائے گا یہ کچے کنارے 

اوک میں بھر کے وہ برسات کا پانی
اَدھ بھری جھیلوں کو ترساتی رہی
اور بہت چھوٹی تھی، کمسن تھی، وہ معصوم بہت تھی
آبشاروں کے ترنم پہ قدم رکھتی تھی اور گونجتی تھی
اور میں عمر کے افکار میں گم
تجربے ہمراہ لئے
ساتھ ہی ساتھ میں بہتا ہوا، چلتا ہوا، بہتا گیا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔