ہفتہ، 8 دسمبر، 2012

موسم بھی نہیں غم کا مگر ٹوٹ رہا ہے

موسم بھی نہیں غم کا مگر ٹوٹ رہا ہے
کس حبس میں آنکھوں سے ثمر ٹوٹ رہا ہے

جیسے کسی ٹہنی پر لرزتے ہوئے پتے
اے موسم ہجراں میرا گھر ٹوٹ رہا ہے

سہمے ہوئے نکلے ہیں پرندے بھی میرے ساتھ
آندھی سے میرے گھر کا شجر ٹوٹ رہا ہے

یہ خون کے قطرے میرے چلنے کا صلہ ہیں
یا پاؤں سے چپکا ہوا در ٹوٹ رہا ہے

میں خواب کی سرحد پر کھڑا دیکھ رہا ہوں
مجھ جیسا کوئی شخص ادھر ٹوٹ رہا ہے

نکلے ہیں جنازوں کی طرح لفظ قلم سے
تخلیق کے پردے میں ہنر ٹوٹ رہا ہے

اک جلتی ہوئی کشتی سمندر میں رکی ہے
موجوں میں تذبذب ہے، بھنور ٹوٹ رہا ہے

یہ خواب قبیلہ کہیں آنکھوں سے نہ بہ جائے
ساحل سا پس دیدہ تر ٹوٹ رہا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔