ہفتہ، 19 جنوری، 2013

نئی نسل کا نوحہ

میں سوچتا ہوں
لکھا ہے جو کچھ،پڑھا ہے جو کچھ وہ کس لئے تھا،
کہاں سے پوچھوں!
وہ کس لیے ہے کسے بتاؤں!
مجھے عقیدوں کے خواب دے کر کہا گیا،ان میں روشنی ہے
چمکتی قدروں کی چھب دکھا کر مجھے بتایا یہ زندگی ہے
سکھائے مجھ کو کمال ایسے
یقیں نہ لا ئیں سکھانے والے اگر انہیں کو میں جا سناؤں
میں کہنہ آنکھوں کی دسترس میں نئے مناظر کہاں سے لاؤں
کہاں پہ جنسِ کمال رکھوں، خیالِ تازہ کہاں سجاؤں
زمین پاؤں تلے نہیں ہے،تو کیسے ستاروں کی سمت جاؤں
پرانی قدریں جو محترم ہیں
انھیں سنبھالوں یا آنے والے نئے عقیدوں کا بھید پاؤں
وہ سب عقیدے،تمام قدریں ،خیال سارے
جو مجھ کو سکے بنا کے بخشے گئے تھے میرے حواسِ خمسہ سے معتبر تھے
جب ان کو رہبر بنا کے نکلا
تو میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھوں میں کچھ نھیں ہے
میں ایسے بازار میں کھڑا ہوں جہاں کرنسی بدل چکی ہے

2 تبصرے:

  1. اعلیٰ بہت ہی عمدہ بہت خوبصورت خیال ہے جو لفظوں کی زینت بن کرمیرے خیالوں کو تازہ کرگیا اور ایک نئی تازگی بخشی

    جواب دیںحذف کریں
  2. انتخاب پسند کرنے پر سپاس گزار ہوں حسیب صاحب۔

    جواب دیںحذف کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔