اتوار، 20 جنوری، 2013

کھنڈر

میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
قدیم راتوں کی ٹوٹی قبروں پر میلے کتبے
دلوں کی ٹوٹی ہوئی صلیبیں گری پڑی ہیں
شفق کی ٹھنڈی چھاؤں سے راکھ اُڑ رہی ہے
جگہ جگہ گرز وقت کے چور ہو گئے
جگہ جگہ ڈھیر ہو گئیں ہیں عظیم صدیاں

میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں مقدس ہتھیلیوں سے گری ہے مہندی
دیوں کی ٹوٹی ہوئی لویں زنگ کھا گئی ہیں
یہیں پہ ہاتھوں کی روشنی جل کے بُجھ گئی ہے
سپاٹ چہروں کے خالی پنے کُھلے ہوئے ہیں
حروف آنکھوں کے مٹ چکے ہیں

میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں کہیں
زندگی کے معنی گرے ہیں اور گِر کے
کھو گئے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔