بدھ، 20 مارچ، 2013

تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا

تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا
مجھ سے جدا ہوا تھا مگر بے وفا نہ تھا

طرفہ عذاب لائے گی اب اس کی بددعا
دروازہ جس پہ شہر کا کوئی کھلا نہ تھا

شامل تو ہوگئے تھے سبھی اک جلوس میں
لیکن کوئی کسی کو بھی پہچانتا نہ تھا

آگاہ تھا میں یوں تو حقیقت کے راز سے
اظہار حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا

جو آشنا تھا مجھ سے بہت دور رہ گیا
جو ساتھ چل رہا تھا مرا آشنا نہ تھا

سب چل رہے تھے یوں تو بڑے اعتماد سے
لیکن کسی کے پاؤں تلے راستہ نہ تھا

ذروں میں آفتاب نمایا تھے جن دنوں
 واصف وہ کیسا دور تھا وہ کیا زمانہ تھا

2 تبصرے:

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔