بدھ، 20 مارچ، 2013

تجھ کو معلوم ہی نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم

تجھ کو معلوم ہی نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم
تیرے چہرے کے یہ سادہ سے اچھوتے سے نقوش
میرے تخیل کو کیا رنگ عطا کرتے ہیں
تیری زلفیں تیری آنکھیں تیرے عارض تیرے ہونٹ
کیسی انجانی سی معصوم خطا کرتے ہیں
خلوت بزم ہو یا جلوت تنہائی ہو
تیرا پیکر میری نظروں میں اتر آتا ہے
کوئی ساعت ہو کوئی فکر ہو کوئی ماحول
مجھ کو ہر سمت تیرا حسن نظر آتا ہے
چلتے چلتے جو قدم آپ ٹھٹھک جاتے ہیں
سوچتا ہوں کہیں تو نے پکارا تو نہیں
گم سی ہو جاتی ہیں نظریں تو خیال آتا ہے
اس میں پنہاں تیری آنکھوں کا اشارہ تو نہیں
دھوپ میں سایہ بھی ہوتا ہے گریزاں جس دم
تیری زلفیں میرے شانوں پر بکھر جاتی ہیں
تھک کہ جب سر کسی پتھر پہ ٹکا دیتا ہوں
تیری بانہیں میری گردن میں اتر آتی ہیں
سر بالیں کوئی بیٹھا ہے بڑے پیار کے ساتھ
میرے بکھرے ہوئے الجھے ہوئے بالوں میں کوئی
انگلیاں پھیرتا جاتا ہے بڑے پیار کے ساتھ
کس کو معلوم ہے میرے خوابوں کی تعبیر ہے کیا
کون جانے میرے غم کی حقیقت کیا ہے
میں سمجھ لوں بھی اگر اس کو محبّت کا جنوں
مجھ کو اس عشق جنوں خیز سے نسبت کیا ہے

یہ گیت حمایت علی نے لکھا تھا۔ جس کو مزید خوبصورتی سلیم رضا نے اپنی آواز کی بدولت بخشی۔ 1962 میں ریلیز ہونے والی فلم آنچل میں شامل کیا گیا۔ جس میں درپن مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔