منگل، 23 اپریل، 2013

شوق کا رنگ بُجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے

شوق کا رنگ بُجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے
کیا میری فصل ہو چُکی کیا میرے دن گُزر گئے

راہگُزرِ خیال میں دوش بدوش تھے جو لوگ
وقت کے گردباد میں جانے کہاں بکھر گئے

شام ہے کتنی بے تپاک شہر ہے کتنا سہم ناک
ہم نفسو کہاں ہو تم جانے یہ سب کدھر گئے

آج کی شام ہے عجیب کوئی نہیں میرے قریب
آج سب اپنے گھر رہے آج سب اپنے گھر گئے

رونقِ بزمِ زندگی طُرفہ ہیں تیرے لوگ بھی
اک تو کبھی نہ آئے تھے، گئے تو رُوٹھ کر گئے

خوش نفسانِ بےنوا، بے خبرانِ خوش ادا
تِیرہ نصیب تھے مگر شہر میں نام کر گئے

آپ میں جون ایلیا سوچئے اب دھرا ہے کیا
آپ بھی اب سدھاریے آپ کے چارہ گر گئے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔