اتوار، 21 اپریل، 2013

تعلق رکھ لیا باقی ، تیّقن توڑ آیا ہوں

تعلق رکھ لیا باقی ،  تیّقن توڑ آیا ہوں
کسی کا ساتھ دینا تھا، کسی کو چھوڑ آیا ہوں

تمھارے ساتھ جینے کی قسم کھانے سے کچھ پہلے
میں کچھ وعدے، کئی قسمیں، کہیں پر توڑ آیا ہوں

محبت کانچ کا زنداں تھی یوں سنگِ گراں کب تھی
جہاں سر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سر پھوڑ آیا ہوں

پلٹ کر آگیا لیکن، یوں لگتا ہے کہ اپنا آپ
جہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے، وہیں رکھ چھوڑ آیا ہوں

اُسے جانے کی جلدی تھی، سومیں آنکھوں ہی آنکھوں میں
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا، وہاں تک چھوڑ آیا ہوں

کہاں تک میں لئے پھرتا محبت کا یہ اِکتارا
سو اب جو سانس ٹوٹی، گیت آدھا چھوڑ آیا ہوں

کہاں تک رم کیا جائے، غزالِ دشت کی صورت
سو احمدؔ دشتِ وحشت سے یکایک دوڑ آیا ہوں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔