اتوار، 21 اپریل، 2013

ضبط کر کے ہنسی کو بُھول گیا

ضبط کر کے ہنسی کو بُھول گیا
میں تو اُس زخم ہی کو بُھول گیا

ذات در ذات ہمسفر رہ کر
اجنبی، اجنبی کو بُھول گیا

صبح تک وجہِ جانکنی تھی جو بات
میں اُسے شام ہی کو بُھول گیا

عہدِ وابستگی گزار کے میں
وجہِ وابستگی کو بُھول گیا

سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں
بحث کیا تھی اِسی کو بُھول گیا

کیوں نہ ہو ناز اِس ذہانت پر
ایک میں، ہر کسی کو بُھول گیا

سب سے پُراَمن واقعہ یہ ہے
آدمی، آدمی کو بُھول گیا

قہقہہ مارتے ہی دیوانہ
ہرغِم زندگی کو بُھول گیا

خواب  ہا  خواب جس کو چاہا تھا
رنگ ہا رنگ اسی کو بُھول گیا

کیا قیامت ہوئی اگر اِک شخص
اپنی خوش قسمتی کو بُھول گیا

سوچ کر اُس کی خلوت انجمنی
واں میں اپنی کمی کو بُھول گیا

سب بُرے مجھ کو یاد رہتے ہیں
جو بَھلا تھا اُسی کو بُھول گیا

اُن سے وعدہ تو کر لیا لیکن
اپنی کم فُرصتی کو بُھول گیا

بستیو! اب تو راستہ دے دو
اب تو میں اس گلی کو بُھول گیا

اُس نے گویا مُجھی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اُسی کو بُھول گیا

یعنی تم وہ ہو، واقعی؟ حد ہے
میں تو سچ مُچ سبھی کو بُھول گیا

آخری بُت خدا نہ کیوں ٹھہرے
بُت شکن بُت گری کو بُھول گیا

اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بُھول گیا

اس کی خوشیوں سے جلنے والا جون
اپنی ایذا دہی کو بُھول گیا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔