جمعرات، 4 اپریل، 2013

درد دل، پاس وفا، جذبۂ ایماں ہونا

درد دل، پاس وفا، جذبۂ ایماں ہونا
آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

ہم کو منظور ہے اے دیدۂ وحدت آگیں
ایک غنچہ میں تماشائے گلستاں ہونا

سر میں سودا نہ رہا پاؤں میں بیڑی نہ رہی
میری تقدیر میں تھا بے سر و ساماں ہونا

دل اسیری میں بھی آزاد ہے آزادوں کا
ولولوں کے لئے ممکن نہیں زنداں ہونا

دفترِ حسن پہ مہرید قدرت سمجھو
پھول کا خاک کے تودہ سے نمایاں ہونا

گل کو پامال نہ کر لعل و گہر کے مالک
ہے اسے طرۂ دستار غریباں ہونا

ہے مرا ضبط جنوں، جوش جنوں سے بڑھ کر
تنگ ہے میرے لیے چاک گریباں ہونا

ہم اسیروں کی دعا ہے کہ چمن سے اک دن
دیکھتے خانہء صیّاد کا ویراں ہونا

یہ غزل اردو محفل سے کاپی کی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔