ہفتہ، 6 اپریل، 2013

دل سے تری نگاہ جگر میں اتر گئی

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذتِ فراغ
تکلیف پردہ داری زخمِ جگر گئی

وہ بادہ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذت خوابِ سحر گئی

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا ہوس بال و پر گئی

دیکھو تو دل فریبی اندازِ نقشِ پا
موجِ خرام یار بھی کیا گل کتر گئی

ہر بو‌ل ہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی

نظارے نے بھی کام کیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی

فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی


مارا زمانے نے اسدللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔