پیر، 8 اپریل، 2013

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

شرمندہ ترے رخ سے ہے رخسار پری کا
چلتا نہیں کچھ آگے ترے کبک دری کا

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا یاں راہ میں ہر سفری کا

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

ہر زخم جگر داورمحشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تری بیداد گری کا

اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینہ کو لپکا ہےپریشان نظری کا

آمد موسم گل ہم کو تہ بال ہی گزرے
مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

ٹک میر جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ ہے چراغ سحری کا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔