بدھ، 22 مئی، 2013

حب ہر اک شورشِ غم ضبط فغاں تک پہنچے

حب ہر اک شورشِ غم ضبط فغاں تک پہنچے
پھر خدا جانے یہ ہنگامہ کہاں تک پہنچے

آنکھ تک دل سے نہ آئے نہ زباں تک پہنچے
بات جس کی ہے اسی آفت جاں تک پہنچے

کیا تعجب کہ مری روح جواں تک پہنچے
پہلے کوئی مرے نغموں کی زباں تک پہنچے

حسن کے نغمے بھی خاموش زباں تک پہنچے
اب ترے حوصلے اے عشق یہاں تک پہنچے

میرے اشعار میں جو آگ بھری ہے اے کاش !
تجھ کو راس آئے، ترے غم جواں تک پہنچے

رہِ عرفاں میں اک ایسا بھی مقام آتا ہے
ہر یقیں بڑھ کے جہاں وہم و گماں تک پہنچے

اُف وہ کیفیتِ غم، آنکھ جسے دیکھ سکے !
ہائے وہ درد کی لذت جو زباں تک پہنچے

جو زمانے کو برا کہتے ہیں خود ہیں وہ بُرے
کاش یہ بات ترے گوش گراں تک پہنچے

اِن کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
مرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

جلوے بے تاب تھے جو پردہ، فطرت میں جگر
خود تڑپ کر مری چشم نگراں تک پہنچے

پیر، 20 مئی، 2013

کیا یقین اور کیا گماں چُپ رہ

  • کیا یقین اور کیا گماں چُپ رہ
  • شام کا وقت ہے میاں, چپ رہ

  • ہو گیا قصۂ وجود تمام
  • ہے اب آغازِ داستاں, چُپ رہ

  • میں تو پہلے ہی جا چکا ہوں کہیں
  • تُو بھی جاناں نہیں یہاں، چُپ رہ

  • تُو جہاں تھا جہاں جہاں تھا کبھی
  • تُو بھی اب تو نہیں وہاں، چپ رہ

  • ذکر چھیڑا خدا کا پھر تو نے
  • یاں ہے انساں بھی رائگاں، چُپ رہ

  • سارا سودا نکال دے سر سے
  • اب نہیں کوئی آستاں، چُپ رہ

  • اہرمن ہو، خدا ہو یا آدم
  • ہو چکا سب کا امتحاں، چُپ رہ

  • درمیانی ہی اب سبھی کچھ ہے
  • تُو نہیں اپنے درمیاں، چُپ رہ

  • اب کوئی بات تیری بات نہیں
  • نہیں تیری۔۔تری زباں، چُپ رہ

  • ہے یہاں ذکر حالِ موجوداں
  • تُو ہے اب از گزشتگاں، چُپ رہ

  • ہجر کی جاں کنی تمام ہوئی
  • دل ہوا جونؔ بے اماں چُپ رہ

جمعرات، 16 مئی، 2013

تم ایسا کرنا کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا

تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا 
مرے اندھیروں کی فکر چھوڑو تم اپنے گھر کا خیا ل رکھنا

اُجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی
اب اُس میں اُگنے لگے اندھیرے تو کیسا جی میں ملال رکھنا

دیارِ الفت میں اجنبی کو سفر ہے درپیش ظلمتوں کا
کہیں وہ راہوں میں کھو نہ جائے ذرا دریچہ اُجال رکھنا

وہ رسم و رہ ہی نہیں تو پھریہ اثاثے کس کام کے تمھارے
اُدھر سے گزرا کبھی تو لے لوں گا تم مرے خط نکال رکھنا

بچھڑنے والے نے وقتِ رخصت کچھ اس نظر سے پلٹ کے دیکھا
کہ جیسے وہ بھی یہ کہہ رہا ہو، تم اپنے گھر کا خیال رکھنا

یہ دھوپ چھاؤں کاکھیل ہے یاں خزاں بہاروں کی گھات میں ہے
نصیبِ صبح عروج ہو تو نظرمیں شامِ زوال رکھنا

کسے خبر ہے کہ کب یہ موسم اُڑا کے رکھدے گا خاک آذر
تم احتیاطاً زمیں کے سر پر فلک کی چادر ہی ڈال رکھنا

ہفتہ، 11 مئی، 2013

کل اور آج

کل بھی بوندیں برسی تھیں
کل بھی بادل چھائے تھے
اور کوئی نے سوچا تھا

بادل یہ آکاش کے سپنے ان زلفوں کے سائے ہیں
دوش ہوا پر میخانے ہی میخانے گھر آئے ہیں
رت بدلے گی پھول کھلیں گے جھونکے مدھ برسائیں گے
اُجلے اُجلے کھیتوں میں رنگین آنچل لہرائیں گے
چرواہے بنسی کی دھن سے گیت فضا میں بوئیں گے
آموں کے جھنڈوں کے نیچے پردیسی دل کھوئیں گے
پینگ بڑھاتی گوری کے ماتھے سے کوندے لپکیں گے
جوہڑ کے ٹھہرے پانی میں تارے آنکھیں جھپکیں گے
الجھی الجھی راہوں میں وہ آنچل تھامے آئیں گے
دھرتی، پھول ، آکاش ، ستارے سپنا سا بن جائیں گے


کل بھی بوندیں برسی تھیں
کل بھی بادل چھائے تھے
اور کوئی نے سوچا تھا

2

آج بھی بوندیں برسیں گی
آج بھی بادل چھائے ہیں
اور کوئی اس سوچ میں ہے

بستی پر بادل چھائے ہیں پر یہ بستی کس کی ہے
دھرتی پر امرت برسے گا لیکن دھرتی کس کی ہے
ہل جوتے گی کھیتوں میں الہڑ ٹولی دہقانوں کی
دھرتی سے پھوٹے گی محنت فاقہ کش انسانوں کی
فصلیں کاٹ کے محنت کش غلّے کے ڈھیر لگائیں گے
جاگیروں کے مالک آکر سب پونجی لے جائیں گے
بوڑھے دہقانوں کے گھر ، بنیے کی قرقی آئے گی
اور قرضے کے سود میں کوئی گوری بیچی جائے گی
آج بھی جنتا بھوکی ہے کل بھی جنتا ترسی تھی
آج بھی رم جھم برکھا ہوگی کل بھی بارش برسی تھی

آج بھی بادل چھائے ہیں
آج بھی بوندیں برسیں گی
اور کوئی اس سوچ میں ہے

جمعہ، 10 مئی، 2013

خون پھر خون ہے

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

خاکِ صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ، یا لاشۂ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں‌کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اوڑھاتی رہیں ظلمت کا نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ

تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں‌سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں‌ سے

ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے

جمعہ، 3 مئی، 2013

پینڈے

اِیس ہتھ توں اُوس گل دے پینڈے
سوہنی لئی نیں تھل دے پینڈے

میں چاہندا ساں ٹلدے پینڈے
پَج پَج پئے نیں ولدے پینڈے

منزل کوئی دور تا نئیں سی
جے ناں مینوں چھلدے پینڈے

ہوکے پر پر برفاں ہوگئے
کنےسڑدے بلدے پینڈے

میری لانگھ تے سُتے اٹھے
اکھاں مَلدے مَلدے پینڈے

صابرؔ ساں ناں تا ایں خورے
مینوں رئے نیں تلدے پینڈے

جمعرات، 2 مئی، 2013

دورِ حیات آئے گا قاتل، قضا کے بعد

دورِ حیات آئے گا قاتل، قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دلِ بے مدّعا کے بعد

تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد

لذّت ہنوز مائدہٴ عشق میں نہیں
آتا ہے لطفِ جرمِ تمنّا، سزا کے بعد

قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

بدھ، 1 مئی، 2013

ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے

ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے
تیری یادوں کو بھی رُسوا نہیں ہونے دیتے

کچھ تو ہم خود بھی نہیں چاہتے شہرت اپنی
اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے

عظمتیں اپنے چراغوں کی بچانے کے لئے
ہم کسی گھر میں اُجالا نہیں ہونے دیتے

آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے
گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے

ذکر کرتے ہیں ترا نام نہیں لیتے ہیں
ہم سمندر کو جزیرہ نہیں ہونے دیتے

مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔