منگل، 18 جون، 2013

چلو بادِ بہاری جا رہی ہے

چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
پِیا جی کی سواری جا رہی ہے

شمالِ جاودانِ سبز جاں سے
تمنا کی عماری جا رہی ہے

فغاں اے دشمنی دارِ دل و جاں
مری حالت سُدھاری جا رہی ہے

جو اِن روزوں مرا غم ہے وہ یہ ہے
کہ غم سے بُردباری جا رہی ہے

ہے سینے میں عجب اک حشر برپا
کہ دل سے بے قراری جا رہی ہے

میں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہوں
وہ کیا شے ہے جو ہاری جا رہی ہے

دل اُس کے رُوبرو ہے اور گُم صُم
کوئی عرضی گزاری جا رہی ہے

ہے پہلو میں ٹَکے کی اک حسینہ
تری فرقت گزاری جا رہی ہے

وہ سیِّد بچّہ ہو اور شیخ کے ساتھ
میاں عزّت ہماری جا رہی ہے

ہے برپا ہر گلی میں شورِ نغمہ
مری فریاد ماری جا رہی ہے

وہ یاد اب ہو رہی ہے دل سے رخصت
میاں پیاروں کی پیاری جا رہی ہے

دریغا! تیری نزدیکی میاں جان
تری دوری پہ واری جا رہی ہے

بہت بدحال ہیں، بستی، ترے لوگ
تو پھر تُو کیوں سنواری جا رہی ہے

تری مرہم نگاہی اے مسیحا!
خراشِ دل پہ واری جا رہی ہے

خرابے میں عجب تھا شور برپا
دلوں سے انتظاری جا رہی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔