اتوار، 11 اگست، 2013

تشخیص

نبض دیکھی، زباں دیکھی،
آلہ لگا کر
بیٹے کی
سینے اور پیٹھ کی سنیں آوازیں
پھر ماتھے پر بل ڈالے
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:
میری سمجھ سے باہر ہے!
البتہ کچھ ایسے لچھّن
دیکھ رہا ہوں
جو بیماری کے لچھّن ہیں
یا پھر ہیں وہ غلط دوا کے،
ابھی بتانا مشکل ہے۔

جن جن ڈاکٹر کو پہلے
بیٹے کو دکھلایا تھا،
ان کے نسخوں کا بنڈل
میں نے اٹھا کر ان سے پوچھا:
تو پھر؟
ہاتھوں کو جنبش دے کر
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:
فی الحال آپ ایک ہفتے تک
دوا کھلانا بند کریں،
ایک دفعہ پھر بیٹے کو
مرے مطب میں لے کر آئیں۔

مطب سے جب ہم باہر نکلے
سڑکوں پر سنّاٹا تھا،
شاید
ہوا تھا کوئی ہنگامہ،
بسیں، ٹرامیں سبھی تھیں بند۔
فضا میں امونیا کی ترشی تھی۔
پھر اک بم پھٹتے ہی،
جواب میں ٹھائیں ٹھائیں کی
گونج اٹھی تھیں آوازیں۔
میرے منہ سے یہ نکلا:
لچھّن اچھے نہیں ہیں ہرگز!!
بیٹے نے کہا یہ جواباً:
بیماری یا غلط دوا کے،
وثوق سے کہنا مشکل !!!

(نومبر 1969)
جدید بنگالی شاعر
نیریندر ناتھ چکروتی
کے مجموعہ کلام "اُلنگور راجا" سے
ترجمہ: شبیر احمد

2 تبصرے:

  1. بہت کمال کی شاعری ۔۔۔ عجیب مگر اپنے ڈھب پر پوری اترتی ہوئی ۔۔۔ ایسی کہ اپنے پورے دور کی ترجمانی کردے

    جواب دیںحذف کریں
  2. شکریہ نجیب بھائی۔۔۔ آپ ہی کے توسط سے اس تک رسائی ممکن ہوئی ہے۔۔ :)
    اور بیشک یہ ترجمان ہے آج کی بھی

    جواب دیںحذف کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔