بدھ، 14 اگست، 2013

امریکی کوکیز​ از عکسی مفتی

امریکی کوکیز​

ایک دن کی بات

امریکی ایمبیسی کے پبلک افیئر افسر Larry Shuartz کا فون آیا۔ لیری کو میں پہلے سے جانتا تھا۔ اُس نے کہا:
"مفتی کافی اور کوکیز کھانے کے لیے کل شام F-6/3 میں میرے گھر آجاو۔ بہترین امریکی کوکیز کھلاوں گا اور تم سے ملاقات بھی ہو جائے گی"
اگلے روز سہ پہر کے وقت لیری کے گھر پہنچا۔ یہ وہی پرانا جانا پہچانا گھر تھا؛ جس میں پچھلے پچیس سال سے امریکی سفارت کار رہتے تھے۔ میں نے لیری سے کہا ؛ امریکیوں میں ایک خوبی ہے کہ ہر افسر تبادلے پر اپنا گھر نہیں بدلتا۔ اس گھر کو میں پچیس برس سے جانتا ہوں۔
گھر کے اندر پہنچا تو دیکھا کہ ٹیلی ویژن چینل اور ثقافتی اداروں کی کئی ایک شخصیات وہاں پہلے سے موجود تھیں۔ جیو ، دنیا اور دیگر چینلز کے مشہور اینکر اور پروڈیوسرز صوفوں پر بیٹھے تھے۔ فاطمہ جناح کالج کی وائس چانسلر ، نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی معروف شخصیات پہلے ہی موجود تھیں۔ کچھ دیر میں سڑک پر وی ائی پی سائرن بجنے کی آواز گونجی۔ لاتعداد اسپیشل پولیس اسکواڈ کی گاڑیاں جن میں سے کالے کپڑوں میں ملبوس اسپیشل پولیس اسکواڈ بھاری مشین گنوں اور اسلحہ کے ساتھ برامد ہوئے اور گھیرا ڈال لیا۔
میں قدرے پریشان تھا کہ یہ کیسی امریکن کوکیز ہیں جن پر مجھے مدعو کیا گیا ہے۔
لیری کے خاص مہمان کمر ے میں داخل ہوئے۔ امریکی سفیر Nancy Powell , Jonathan Pratt اور ایک خاتون۔ یہ سب لیری کے پیچھے اندر داخل ہوئے۔ ان کا رسمی تعارف کراتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ ہندوستان میں امریکہ کے نئے سفیر ہیں۔ حال ہی میں نئی دلی میں ان کا تقرر ہوا ہے۔
ہماری درخواست پر یہ تینوں نئی دلی میں اپنے عہدے سنبھالنے سے پہلے صرف ایک دن کے لیے اسلام آباد رکے ہیں۔ آپ سب سے مشورہ کرنے۔ امریکی سرکار کی خواہش ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے عوامی اور ثقافتی رابطے بحال کیے جائیں۔ ان دونوں ملکوں کی ثقافت ایک ہے ، لوگ ایک ہیں ، تاریخ ایک ہے لہذا people to people contact کو فروغ دینا اور ان کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہمارے مقاصد میں شامل ہے۔ اس وجہ سے ہم نے آج آپ جیسی مقبول اور جانی پہچانی شخصیات کو مدعو کیا ہے۔ ہندوستان میں نامزد نئے سفیر آپ کے پاس بیٹھے ہیں۔ یہ آپ کی رائے لینا چاہتے ہیں کہ کیا اقدام کیے جائیں کہ پاک و ہند کے عوامی اور ثقافتی روابط بڑھائے جا سکیں۔ ان دونوں ملکوں کو قریب سے قریب تر لایا جائے۔

سب سے پہلے جیو کا نمائندہ اٹھ کھڑا ہوا اور بولا:
" جناب عالی ہم تو اس نیک کام میں پیش پیش ہیں۔ ہمارا پروگرام "امن کی آشا" مقبول ترین پروگراموں میں سے ایک ہے۔ ہماری کامیابی کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں ہندوستان کی مشہور اور معروف فلمی شخصیت امیتابھ بچن نے پاکستانیوں سے بیس منٹ تک جیو ٹی وی سے خطاب کیا ہے۔ لیکن جناب ہم اس سے زیادہ کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میری آپ سے درخواست ہے ہماری مالی امداد میں اضافہ کردیا جائے۔

فورا ہی دنیا ٹی وی والے بول اٹھے ، یہ international affairs پر نظر رکھنے والا شخص انتہائی دانشمندانہ طریقے سے بولا :
جناب عالی بات دراصل یہ ہے کہ امریکہ کی پالیسی اور امریکہ کی کہی ہوئی بات پر پاکستانی عوام تشویش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بدگمانی پیدا ہوتی ہے لہذا میری تجویز یہ ہے کہ آپ پاکستان اور ہندوستان کو قریب لانے کی پالیسی کا اعلان یورپی یونین سےکروائیں۔ یورپی یونین کے دباو میں آ کر پاکستانی حکومت با آسانی اس پالیسی پر عمل کر سکے گی۔ پاکستانی عوام بھی اسے شک کی نگاہ سےنہیں دیکھیں گے۔ باقی رہا کام ترویج و تشہیر کا تو وہ دنیا ٹی وی با آسانی کر سکے گا۔ مشکل یہ ہے کہ ہمیں اس کے لیے آپ سے مزید مالی امداد کی فوری ضرورت ہوگی۔

اسلام آباد کی ایک جانی پہچانی آرٹ گیلری کی سربراہ خاتون کہنے لگیں: ہم تو اس پروگرام پر پچھلے سال سے بھر پور عمل کر رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہندوستان کی اہم شخصیات کے ایک گروہ کو پاکستان آنے کی دعوت دی ۔انہیں شہر شہر گھمایا ، مختلف لوگوں کے ساتھ میل ملاقاتیں ہوئیں۔ جنابِ عالی اس طرح ایسے ہی پروگراموں سے میری اور میرے ادارے کی کوششوں سے آپ کی پالیسی پروان چڑھے گی۔ رکاوٹ صرف یہ ہے کہ آپ کے دیے ہوئے فنڈز ہمیں حکومت پاکستان سے لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ لہذا آپ سے درخواست ہے کہ ہماری مالی امداد براہ راست ہمیں دی جائے۔

میرے ساتھ بیٹھی ہوئی ایک بہت ہی نامور ثقافتی شخصیت ، جو کئی ایک اداروں کے سربراہ رہ چکے ہیں اور حال ہی میں ڈائرکٹر جنرل کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے ، کہنے لگے:
جناب سب بجا ، لیکن ہمارے خیال میں پاکستانی عوام اور ہندوستانی عوام کو قریب لانے کا واحد موثر ذریعہ میڈیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مخصوص کام کے لیے ایک علیحدہ سیٹلائٹ ٹی وی چینل کھولنا چاہیے جو اس پروگرام کے لیے وقف ہو۔حضور یہ وہ کام ہے جو میں بذات خود بخوبی انجام دے سکتا ہوں۔ آپ مجھ پر اعتماد کریں آپ دیکھیں گے کہ کس قدر کم عرصہ میں دونوں ملکوں کے عوام کو جوڑ دوں گا۔ لیکن اس کام کے لیے مالی امداد کی ضرورت ہوگی۔
اس طرح ہر پاکستانی شخصیت نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا لیکن ہر ایک کی بات ایک ہی نکتے پر ختم ہوئی۔ امریکہ سے مالی امداد کی استدعا
میں چپ چاپ بیٹھا سب کی سنتا رہا اور کچھ نہ بولا۔ اتنے میں ہندوستان میں نامزد امریکی سفیر کی نگاہ مجھ پر ٹھہر گئی۔ وہ مجھ سے کہنے لگے " سر ، آپ کی رائے سے ہم مستفید نہیں ہو سکے ، آپ بھی کچھ کہیں"
میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا
"یوئر ایکسیلنسی! مجھے تو لیری نے غیر رسمی طور پر امریکن کوکیز کی دعوت دی تھی ۔ میں تو کوکیز کھانے آیا تھا"
یہ سنتے ہی مسٹر پریٹ کو ایک بجلی کا جھٹکا لگا اور وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ درمیان میں پڑی میز پر ایک بڑی پلیٹ ان کے ہاتھ میں تھی۔ اس پلیٹ کو لے کر وہ واپس پلٹے اور میرے سامنے پلیٹ کو بڑھاتے ہوئے بولے
" یہ سب کوکیز آپ ہی کے لیے ہیں ، شوق فرمائیں"
میں نے جواب دیا:
"میں امریکن کوکیز کا پچھلے پچیس برس سے شیدائی ہوں۔ لیکن انہیں کھا کھا کر مجھے شوگر کی بیماری لگ گئی ہے۔ لہذا معذرت سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ کوکیز میرے آگے نہ رکھی جائیں"
سفیر صاحب نے پلیٹ واپس رکھتے ہوئے کہا:
"مہربانی فرما کر اپنی قیمتی رائے کا اظہار تو کریں"
میں نے کہا: "جناب یہاں عالم فاضل لوگ بیٹھے ہیں ، میں تو ایک folklorist ہوں۔ آپ چاہیں تو ایک مختصر سی کہانی بیان کر سکتا ہوں"
بولے : " بے شک ، بے شک ، کہانی تو ہم بڑے شوق سے سنتے ہیں"
میں نے کہا:
سفیر صاحب یہ میرے دیس کی قدیم کہانیوں میں سے ایک ہے۔ یہاں سے سو میل دور کے فاصلے پر دریائے جہلم کے کنارے راجہ پورس کے ساتھی اور فوجیں حملہ آور سکندر اعظم کی منتظر تھیں۔ انہیں ہر صورت بیرونی حملہ آور سے اپنی سر زمین ، اپنے دیس کا تحفظ کرنا تھا۔ اسے بچانا تھا۔ اس دریا کے کنارے گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ راجہ پورس نے ہر ممکن اپنا ملک اور ریاست بچانے کی کوشش کی لیکن سکندر اعظم کی اعلی قیادت اور مضبوط فوجوں کے آگے پورس کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ شکست خوردہ بادشاہ کو جب سکندر اعظم کے آگے پیش کیا گیا تو فاتح بادشاہ نے پوچھا:
"اب تم سے کیا سلوک کیا جائے؟"
پورس نے جواب دیا:
"جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے کرتا ہے"
سکندر اعظم ایک ذہین اور دور اندیش فاتح تھا وہ پورس کی بات سمجھ گیا اور اسی وقت اس کی سرزمین اسے لوٹا دی۔ اس دن پورس سکندر کا بہت بڑا خیر خواہ اور حامی بن گیا۔
کہانی جاری رکھتے ہوئے میں نے کہا:
"سفیر صاحب ہر چند کہ ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے اور ہم بہت چھوٹے ہیں۔ اس خیر سگالی کو ہم یقینا خوش آمدید کہیں گے اگر ہندوستان ہمارے ساتھ برابری کا رشتہ قائم کرے ۔ ہم سے وہی سلوک کرے جو سکندر نے پورس کے ساتھ کیا۔ لیکن جناب انہوں نے تو آج تک پاکستان کی جغرافیائی حقیقت اور اسے آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم ہی نہیں کیا۔ بلکہ اس کےوجود کو ماننا ہی نہیں چاہتے اور کسی اکھنڈ بھارت کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ کیا وہ ہمیں برابری دیں گے؟
میں نے کہا حضور یہ مشاورت اور میٹنگ جو آپ اسلام آباد میں کر رہے ہیں شاید اس کی افادیت اور ضرورت دہلی میں زیادہ ہو۔ یہ باتیں کہتے کہتے میں کچھ جذباتی سا ہوگیا۔
جناب! یہ جیو والوں کو بڑا ناز ہے کہ امن کی آشا کے تحت امیتابھ جیسی شخصیت پاکستانیوں سے بیس منٹ تک ہم کلام ہوئی۔ یہ پروگرام میری گنہگار آنکھں نے بھی دیکھا تھا لیکن اس وقت میرے دماغ نے یہ سوال بار بار دہرایا کہ کیا کوئی پاکستانی شخصیت بھی اس طرح کسی ہندوستانی چینل پر ایسے ہی ہم کلام ہوئی ہے یا یہ یک طرفہ ٹریفک ہے۔

"If i as Pakistani can not address Indian people through an Indian channel then Ameetab Bachan be damned. What business has he to talk to my nation when I am not given the chance on equal basis"
امریکی سفیر کو میری باتیں سن کر سانپ سونگھ گیا۔ لیکن پاکستانی ٹیلی ویژن کے نمائندے قدرے اضطراب میں بولے:
"حضور پاکستانی معاشرے میں دہشت گردی ہے ، انتہا پسندی ہے ،جارحیت ہے"
امریکی سفیر نے لقمہ دیا :
" ہاں ہاں ہم جانتے ہیں طالبان اور talibanisation ایک بڑا مسئلہ ہے"
میں نے فورا سفیر کی بات کاٹتے ہوئے کہا :
"جناب طالبان کی بات نہ کریں ، طالبان بھی damned ۔ ان کی فکر آپ کیوں کر رہے ہیں ، یہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے۔ اس سے ہم خود نبٹ لیں گے۔ آپ زحمت نہ کریں"
ہندوستان میں نامزد نیا سفیر اسی رات ہندوستان چلا گیا لیکن وہ دن اور آج کا دن پھر کسی امریکی سفیر نے مجھے امریکن کوکیز پر مدعو نہیں کیا۔

2 تبصرے:

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔