جمعرات، 29 اگست، 2013

میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی​

میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی​
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی​
خاطرِ بادیہ سے دیر میں جاوے گی کہیں​
خاک مانند بگولے کے اڑانی اس کی​
ایک ہے عہد میں اپنے وہ پراگندہ مزاج​
اپنی آنکھوں میں نہ آیا کوئی ثانی اس کی​
مینہ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے​
اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی​
بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا​
پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی​
کر کے تعویذ رکھیں اس کو بہت بھاتی ہے​
وہ نظر پاؤں پہ وہ بات دوانی اس کی​
اس کا وہ عجز تمھارا یہ غرورِ خوبی​
منتیں ان نے بہت کیں پہ نہ مانی اس کی​
کچھ لکھا ہے تجھے ہر برگ پہ اے رشکِ بہار​
رقعہ واریں ہیں یہ اوراق خزانی اس کی​
سر گذشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا​
سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی​
مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیے لوگوں کو​
شہر دلّی میں ہے سب پاس نشانی اس کی​
میان سے نکلی ہی پڑتی تھی تمھاری تلوار​
کیا عوض چاہ کا تھا خصمیِ جانی اس کی​
آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی، پھوٹ بہے​
درد مندی میں گئی ساری جوانی اس کی​
اب گئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل​
حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی​

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔