پس مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
اسے آہ دامنِ باد نے، سر شام ہی سے بجھا دیا
مجھے دفن کرنا تو جس گھڑی، تو یہ اس سے کہنا کہ ائے پری
وہ جو تیرا عاشق زار تھا، تہہ خاک اسے دبا دیا
دم غسل سے مرے پیشتر، اسے ہم دموں نے یہ سوچ کر
کہیں جائے اس کا نہ دل دہل، میری لاش پر سے ہٹا دیا
میری آنکھ جھپکی تھی اک پل، میرے دل نے چہا کہ اُٹھ کر چل
دل بے قرار نے اور میاں وہیں چٹکی کے کے جگا دیا
ذرا ان کی شوخی تو دیکھیے لئے زلف زخم شدہ ہاتھ میں
میرے پیچھے آئے دبے دبے مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا
میں نے دل دیا، میں جاں دی، مگر آہ! تو نہ نہ قدر کی
کسی بات کو جو کہا کبھی، اسے چٹکیوں میں اُڑا دیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں