ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا
دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا
اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغلِ فصلِ بہار تھا، نہ رہا
آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ نا خوش گوار تھا، نہ رہا
ان کی بے مہریوں کو کیا معلوم
کوئی اُمّیدوار تھا، نہ رہا
آہ کا اعتبار بھی کب تک
آہ کا اعتبار تھا، نہ رہا
کچھ زمانے کو سازگار سہی
جو ہمیں سازگار تھا، نہ رہا
مہرباں، یہ مزارِ فانی ہے
آپ کا جاں نثار تھا، نہ رہا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں