اتوار، 3 نومبر، 2013

كوئی بھی لمحہ كبھی لوٹ كر نہیں آیا

كوئی بھی لمحہ كبھی لوٹ كر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا

وفا كے دشت میں رستہ نہیں ملا كوئی
سوائے گرد سفر ہم سفر نہیں آیا

پَلٹ كے آنے لگے شام كے پرندے بھی
ہمارا صُبح كا بُھولا مگر نہیں آیا

كِسی چراغ نے پُوچھی نہیں خبر میری
كوئی بھی پُھول مِرے نام پر نہیں آیا

چلو كہ كوچۂ قاتل سے ہم ہی ہو آئیں
كہ نخلِ دار پہ كب سے ثمر نہیں آیا 

خُدا كے خوف سے دل جو لرزتے رہتے ہیں
اُنھیں كبھی بھی زمانے سے ڈر نہیں آیا

كدھر كو جاتے ہیں رستے، یہ راز كیسے كُھلے
جہاں میں كوئی بھی بارِ دگر نہیں آیا

یہ كیسی بات كہی شام كے ستارے نے
كہ چَین دل كو مِرے رات بھر نہیں آیا

ہمیں یقین ہے امجد نہیں وہ وعدہ خلاف
پہ عُمر كیسے كٹے گی، اگر نہیں آیا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔