كوئی بھی لمحہ كبھی لوٹ كر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا
وفا كے دشت میں رستہ نہیں ملا كوئی
سوائے گرد سفر ہم سفر نہیں آیا
پَلٹ كے آنے لگے شام كے پرندے بھی
ہمارا صُبح كا بُھولا مگر نہیں آیا
كِسی چراغ نے پُوچھی نہیں خبر میری
كوئی بھی پُھول مِرے نام پر نہیں آیا
چلو كہ كوچۂ قاتل سے ہم ہی ہو آئیں
كہ نخلِ دار پہ كب سے ثمر نہیں آیا
خُدا كے خوف سے دل جو لرزتے رہتے ہیں
اُنھیں كبھی بھی زمانے سے ڈر نہیں آیا
كدھر كو جاتے ہیں رستے، یہ راز كیسے كُھلے
جہاں میں كوئی بھی بارِ دگر نہیں آیا
یہ كیسی بات كہی شام كے ستارے نے
كہ چَین دل كو مِرے رات بھر نہیں آیا
ہمیں یقین ہے امجد نہیں وہ وعدہ خلاف
پہ عُمر كیسے كٹے گی، اگر نہیں آیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں