دُور دُور مجھ سے وہ اس طرح خراماں ہے
ہر قدم ہے نقشِ دل، ہر نگہ رگِ جاں ہے
بن گئی ہے مستی میں دل کی بات ہنگامہ
قطرہ تھی جو ساغر میں لب تک آ کے طوفاں ہے
ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اِک سجدہ
سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں ہے
میرے شکوۂ غم سے عالمِ ندامت میں
اُس لبِ تبسّم پر شمع سی فروزاں ہے
یہ نیازِ غم خواری، یہ شکستِ دل داری
بس نوازشِ جاناں، دل بہت پریشاں ہے
منتظر ہیں پھر میرے حادثے زمانے کے
پھر مرا جنوں تیری بزم میں غزل خواں ہے
فکر کیا انہیں جب تو ساتھ ہے اسیروں کے
اے غم اسیری تُو خود شکستِ زنداں ہے
اپنی اپنی ہمت ہے، اپنا اپنا دل مجروحؔ
زندگی بھی ارزاں ہے، موت بھی فراواں ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں