لیکن اس ترکِ محبت کا
بھروسا بھی نہیں
یہ بھی سچ ہے کہ محبت
پہ نہیں میں مجبور
یہ بھی سچ ہے کہ ترا
حسن کچھ ایسا بھی نہیں
مہربانی کو محبت نہیں
کہتے اے دوست
آہ اب مجھ سے تری رنجش
بے جا بھی نہیں
مدتیں گزریں تری یاد بھی
آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں
تجھے ایسا بھی نہیں
ہائے وہ رازِ محبت جو
چھپائے نہ بنے
ہائے وہ داغِ محبت جو
ابھرتا بھی نہیں
آہ یہ مجمع احباب یہ
بزمِ خاموشی
آج محفل میں فراقِ سخن
آراء بھی نہیں
بہت خوب جناب۔۔۔
جواب دیںحذف کریںمہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں
مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
۔۔۔
شکریہ فرخ :)
جواب دیںحذف کریں