بدھ، 25 دسمبر، 2013

سر میں سودا بھی نہیں ، دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن اس ترکِ محبت کا بھروسا بھی نہیں

یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور
یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں

مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

ہائے وہ رازِ محبت جو چھپائے نہ بنے
ہائے وہ داغِ محبت جو ابھرتا بھی نہیں

آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ خاموشی
آج محفل میں فراقِ سخن آراء بھی نہیں

2 تبصرے:

  1. بہت خوب جناب۔۔۔
    مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
    آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں

    مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
    اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
    ۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔