جمعہ، 27 دسمبر، 2013

اقتباسات از جون ایلیا

سن لیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ تاریخ کے خلاف کبھی جنگ نہیں کی جا سکتی اور اگر جنگ کی جائے گی تو شرم ناک ترین شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ تم نے تاریخ کے خلاف جنگ کی اور اپنے اندر اور اپنے باہر شکست کھا گئے۔ جو مستقبل کی طرف قدم نہیں اٹھائے گا وہ ماضی کی طرف بری طرح دھکیل دیا جائے گا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ علم تھا، دانش تھی۔ حکمت اور عمل کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ اس لیے ان کی دھاندلی جیت گئی۔ تمہارے ساتھ ایسا کوئی سلسلہ نہیں تھا، اس لیے تمہاری غلط کاری اور غلط کوشی کو تو سزا یاب ہونا ہی تھا۔ تم بتاؤ، جواب دو کہ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ آخر تم نے تاریخ سے ایسا کون سا معاہدہ کیا ہے کہ تم وقت سے ہٹ کر چلو اور وقت تمہیں راستہ دے دے۔ عراق کی شکست جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کی شکست ہے۔ علم کے مقابلے میں جہالت کی شکست ہے۔

کیا ہنر کی نقالی ہنر سے جیت سکتی ہے؟ کیا خریدی ہوئی مہارت حقیقی مہارت کا سامنا کر سکتی ہے؟ حیرت ہے کہ ہم یہ بات کیوں نہیں سوچتے اور یہ نقطہ کیوں نہیں سمجھتے؟ ہمیں اس حقیقت کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے۔

اپریل 1991

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔