غبار جاں نکلنا جانتا ہے
دھواں روزن کا رستا جانتا ہے
تم اس کی رہنمائی کیا کرو گے
کدھر جانا ہے دریا جانتا ہے
بہت حیراں ہوا میں اس سے مل کر
مجھے اک شخص کتنا جانتا ہے
نہیں چلتے زمانے کی روش پر
ہمیں بھی اک زمانہ جانتا ہے
بڑے چرچے ہیں اُس کی آگہی کے
مگر انساں ابھی کیا جانتا ہے
کیے ہیں جس نے دل تخلیق انورؔ
دلوں کا حال سارا جانتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں