بدھ، 22 جنوری، 2014

وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی

وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

نہ اپنا رنج نہ اپنا دکھ نہ اوروں کا ملال
شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی

محبتوں کا سفر کچھ اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی

عداوتیں تھیں ، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا ، بے وفائی نہ تھی

بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی

کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی

عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیر
وہاں بھی آ گئے آخر جہاں رسائی نہ تھی

7 تبصرے:

  1. بہت خوب ۔۔۔۔۔! عمدہ غزل ہے۔ بس یہ ہے کہ غزل کے نام پر ڈرامے کو کچھ زیادہ ہی رگڑ دیا۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ڈرامہ تو نہیں دیکھا میں نے احمد بھائی۔۔۔ لیکن خیر یہ غزل قرۃ العین بلوچ کو مشہور کر گئی اس ڈرامے کی وجہ سے۔۔۔ وگرنہ گایا اس کو عابدہ پروین نے بھی تھا۔ :)

    جواب دیںحذف کریں
  3. ڈرامہ تو غالباً کوئی خاص نہیں تھا۔ لیکن غزل واقعی خوب گائی ہے نئی گلوکارہ نے۔ عابدہ پروین والی بھی سُنی ہے میں نے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. اور کیا ہر تبصرے پر کیپچا کا اندراج کرنا ہوگا؟

    جواب دیںحذف کریں
  5. جی اچھی گائی ہے۔ مگر عابدہ والی گائیکی پختہ ہے۔ :)

    جواب دیںحذف کریں
  6. یہ کیپچا کیا بلا ہے؟ مجھے تو نہیں آتا۔۔۔ اور آپ کو بھی نہیں آنا چاہیے۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔