وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اپنا دکھ نہ اوروں کا ملال
شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر کچھ اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں ، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا ، بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیر
وہاں بھی آ گئے آخر جہاں رسائی نہ تھی
بہت خوب ۔۔۔۔۔! عمدہ غزل ہے۔ بس یہ ہے کہ غزل کے نام پر ڈرامے کو کچھ زیادہ ہی رگڑ دیا۔
جواب دیںحذف کریںڈرامہ تو نہیں دیکھا میں نے احمد بھائی۔۔۔ لیکن خیر یہ غزل قرۃ العین بلوچ کو مشہور کر گئی اس ڈرامے کی وجہ سے۔۔۔ وگرنہ گایا اس کو عابدہ پروین نے بھی تھا۔ :)
جواب دیںحذف کریںڈرامہ تو غالباً کوئی خاص نہیں تھا۔ لیکن غزل واقعی خوب گائی ہے نئی گلوکارہ نے۔ عابدہ پروین والی بھی سُنی ہے میں نے۔
جواب دیںحذف کریںاور کیا ہر تبصرے پر کیپچا کا اندراج کرنا ہوگا؟
جواب دیںحذف کریںجی اچھی گائی ہے۔ مگر عابدہ والی گائیکی پختہ ہے۔ :)
جواب دیںحذف کریںیہ کیپچا کیا بلا ہے؟ مجھے تو نہیں آتا۔۔۔ اور آپ کو بھی نہیں آنا چاہیے۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریں:) :)
جواب دیںحذف کریں