جنون دل نہ صرف اتنا کہ اک گل پیرہن تک ہے
قد و گیسو سے اپنا سلسلہ دارو رسن تک ہے
مگر اے ہم قفس، کہتی ہے شوریدہ سری اپنی
یہ رسمِ قید و زنداں، ایک دیوارِ کہن تک ہے
کہاں بچ کر چلی اے فصل گل، مجھ آبلہ پا سے
مرے قدموں کی گلکاری بیاباں سے چمن تک ہے
میں کیا کیا جرعۂ خوں پی گیا پیمانۂ دل میں
بلا نوشی مری کیا اک مئے ساغر شکن تک ہے
نہ آخر کہہ سکا اُس سے مرا حال دل سوزاں
مہ تاباں کہ جو اس کا شریک انجمن تک ہے
نوا ہے جاوداں مجروحؔ جس میں روح ساعت ہو
کہا کس نے مرا نغمہ زمانے کے چلن تک ہے
بہت خوب۔۔۔
جواب دیںحذف کریںشکریہ فرخ بھائی :)
جواب دیںحذف کریں