جمعرات، 23 جنوری، 2014

دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتا تھا

دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتا تھا
میں اپنے ہاتھ کا تتلی پہ سایہ کرتا تھا

اگر میں پوچھتا بادل کدھر کو جاتے ہیں
جواب میں کوئی آنسو بہایا کرتا تھا

یہ چاند ضعف ہے جس کی زباں نہیں کھلتی
کبھی یہ چاند کہانی سنایا کرتا تھا

میں اپنی ٹوٹتی آواز گانٹھنے کے لئے
کہیں سے لفظ کا پیوند لایا کرتا تھا

عجیب حسرت پرواز مجھ میں ہوتی تھی
میں کاپیوں میں پرندے بنایا کرتا تھا

تلاش رزق میں بھٹکے ہوئے پرندوں کو
میں جیب خرچ سے دانہ کھلایا کرتا تھا

ہمارے گھر کے قریب ایک جھیل ہوتی تھی
اور اس میں شام کو سورج نہایا کرتا تھا

یہ زندگی تو مجھے ترے پاس لے آئی
یہ راستہ تو کہیں اور جایا کرتا تھا

2 تبصرے:

  1. سبحان اللہ ۔۔۔۔! کیا ہی خوب غزل ہے۔

    واہ واہ ۔۔۔ جیتے رہیے۔ :) :)

    جواب دیںحذف کریں
  2. شکریہ احمد بھائی۔۔۔۔ انتخاب کو پسند کرنے کا۔۔۔۔۔ :)

    جواب دیںحذف کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔