ہم رات بہت روئے، بہت
آہ و فغاں کی
دل درد سے بوجھل ہو تو پھر نیند کہاں کی
سر زانو پہ رکھے ہوئے کیا سوچ رہی ہو؟
کچھ بات سمجھتی ہو محبت زدگاں کی؟
تم میری طرف دیکھ کے چپ ہو سی گئی تھیں
وہ ساعتِ خوش وقت نشاطِ گزراں کی
اک دن یہ سمجھتے تھے کہ پایانِ تمنا
اک رات ہے مہتاب کے ایامِ جواں کی
اب اور ہی اوقات ہے اے جانِ تمنا!
ہم نالہ کناں، بے گنَہاں، غم زدگاں کی
اس گھر کی کھلی چھت پہ چمکتے ہوئے تارو!
کہتے ہو کبھی جا کے وہاں بات یہاں کی ؟
برگشتہ ہوا ہم سے، یہ مہتاب تو پیارو!
بس بات سنی، راہ چلا، کاہکشاں کی
اللہ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی
ہوتا ہے یہی عشق میں انجام سبھی کا
باتیں یہی دیکھی ہیں محبت زدگاں کی
پڑھتے ہیں شب و روز اسی شخص کی غزلیں
غزلیں یہ حکایات ہیں ہم دل زدگاں کی
تم چرخِ چہارم کے ستارے ہوئے لوگو!
تاراج کرو زندگیاں اہلِ جہاں کی
اچھا ہمیں بنتے ہوئے، مٹتے ہوئے دیکھو
ہم موجِ گریزاں ہی سہی، آبِ رواں کی
انشاؔ سے ملو، اس سے نہ روکیں گے وہ، لیکن
اُس سے یہ ملاقات نکالی ہے کہاں کی
مشہور ہے ہر بزم میں اس شخص کا سودا
باتیں ہیں بہت شہر میں بدنام، میاں کی
اے دوستو! اے دوستو! اے درد نصیبو!
گلیوں میں، چلو سیر کریں، شہرِ بتاں کی
ہم جائیں کسی سَمت، کسی چوک میں ٹھہریں
کہیو نہ کوئی بات کسی سود و زیاں کی
انشاؔ کی غزل سن لو، پہ رنجور نہ ہونا
دیوانا ہے، دیوانے نے اک بات بیاں کی
بشکریہ فاتحؔ الدین بشیر
بشکریہ فاتحؔ الدین بشیر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں