ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
خود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو
خود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو
روشنی کا یہ مسافر ہے رہِ جاں کا نہیں
اپنے سائے سے بھی ہونے لگی وحشت ہم کو
آنکھ اب کس سے تحیر کا تماشا مانگے
اپنے ہونے پہ بھی ہوتی نہیں حیرت ہم کو
اب کے اُمید کے شعلے سے بھی آنکھیں نہ جلیں
جانے کس موڑ پہ لے آئی محبت ہم کو
کون سی رُت ہے زمانے ، ہمیں کیا معلوم
اپنے دامن میں لئے پھرتی ہے حسرت ہم کو
زخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شاید نہ بھرے
ہجر میں ایسی ملی اب کے مسافت ہم کو
داغِ عصیاں تو کسی طور نہ چھپتے امجدؔ
ڈھانپ لیتی نہ اگر چادرِ رحمت ہم کو
بہت خوب
جواب دیںحذف کریںسپاسگزار ہوں۔۔۔ :)
جواب دیںحذف کریں