پیر، 3 فروری، 2014

تجھ کو دیکھا ھے جو دریا نے ادھر آتے ھوئے

تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے ادھر آتے ہوئے
کچھ بھنور ڈوب گئے پانی میں چکراتے ہوئے

ہم نے تو رات کو دانتوں سے پکڑ رکھا ہے
چھینا جھپٹی میں افق کھلتا گیا جاتے ہوئے

جھپ سے پانی میں اتر جاتی ہے گلنار شفق
سرخ ہو جاتے ہیں رخساربھی،شرماتے ہوئے

میں نہ ہوں گا تو خزاں کیسے کٹے گی تیری
شوخ پتے نے کہا شاخ سے،مرجھاتے ہوئے

حسرتیں اپنی بلکتیں نہ یتیموں کی طرح
ہم کو آواز ہی دے لیتے ذرا، جاتے ہوئے

2 تبصرے:

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔