تجھ کو دیکھا ہے جو دریا
نے ادھر آتے ہوئے
کچھ بھنور ڈوب گئے پانی
میں چکراتے ہوئے
ہم نے تو رات کو دانتوں
سے پکڑ رکھا ہے
چھینا جھپٹی میں افق کھلتا
گیا جاتے ہوئے
جھپ سے پانی میں اتر جاتی
ہے گلنار شفق
سرخ ہو جاتے ہیں رخساربھی،شرماتے
ہوئے
میں نہ ہوں گا تو خزاں
کیسے کٹے گی تیری
شوخ پتے نے کہا شاخ سے،مرجھاتے
ہوئے
حسرتیں اپنی بلکتیں نہ
یتیموں کی طرح
ہم کو آواز ہی دے لیتے
ذرا، جاتے ہوئے
واہ کیا خوبصورت غزل ہے۔
جواب دیںحذف کریںایک ایک شعر لاجواب ہے۔
شکریہ احمد بھائی۔۔۔ :)
جواب دیںحذف کریں