پیر، 10 فروری، 2014

مجھ کو شبِ وجود میں تابش خواب چاہیے

مجھ کو شبِ وجود میں تابش خواب چاہیے
شوقِ خیال تازہ ہے یعنی عذاب چاہیے

آج شکستِ ذات کی شام ہے مجھ کو آج شام
صرف شراب چاہیے ، صرف شراب چاہیے

کچھ بھی نہیں ہے ذہن میں کچھ بھی نہیں سو اب مجھے
کوئی سوال چاہیے کوئی جواب چاہیے

اس سے نبھے گا رشتۂ سود و زیاں بھی کیا بھلا
میں ہوں بلا کا بدحساب اس کو حساب چاہیے

امن و امانِ شہرِ دل خواب و خیال ہے ابھی
یعنی کہ شہر دل کا حال اور خراب چاہیے

جانِ گماں ہمیں تو تم صرف گمان میں رکھو
تشنہ لبی کو ہر نفس کوئی سراب چاہیے

کھل تو گیا ہے دل میں ایک مکتبِ حسرت و امید
جونؔ اب اس کے واسطے کوئی نصاب چاہیے

2 تبصرے:

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔